Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 اسے  معلوم  ہی کب  ہے
کہ اس کی اضطرابی سے
بہت  بے چین رہتا ہوں
ادھورے خواب بنتا ہوں
وصل کے لمحے کتنے کٹھن ہوتے ہیں کیسی اذیت ہوتی ہے ان کو اس طرح جھیلنے میں کہ کسی پل قرار ہی نہیں ملتا ہے، بن جل مچھلی کی مانند تڑپ کر، بے چین ہو کر اس نے گزارے تھے وہ لان میں بیٹھا گیٹ کوتک رہا تھا۔ جب اس کی برداشت جھنجلاہٹ اور غصے میں بدلنے ہی والی تھی کہ گیٹ وا ہوا اور فیاض صاحب کار لے کر اندر آئے تھے، شیری کے وجہیہ چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
فوراً وہ چیئر سے اٹھا تھا، دل تو چاہ رہا تھا کہ بھاگ کر جائے اور کار کا دروازہ کھول کر پری کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آئے مگر اس کی نگاہ کچھ دور موجود ماں اور بہنوں کے ساتھ ڈیڈی کو دیکھ کر دل کی خواہش دل میں ہی دبانی پڑی۔


پروقار انداز میں وہ کار کی طرف بڑھا، فیاض اور صباحت باہر آ گئے تھے، صباحت مسز عابدی سے ملنے لگی تھیں، فیاض بیک ڈور کھول کر اماں کو باہر آنے میں مدد دے رہے تھے۔

مسز عابدی بھی تیزی سے اماں جان کی طرف بڑھی تھیں جب کہ عادلہ اور عائزہ بھی کار سے نکل آئی تھیں، عادلہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہی تھی… مگر وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا، اس کی نگاہیں خالی کار کو دیکھ رہی تھیں، جہاں وہ ہستی موجود نہ تھی، جس کا اس نے پل پل انتظار کیا تھا، جس کی خاطر ڈنر کا پروگرام بنایا تھا، اس کے اندر آندھی سی چلنے لگی تھی۔
وہ سب ایک دوسرے سے علیک سلیک میں مصروف تھے، شیری قدم بڑھا نہ سکا تھا دل کی حالت ہی بدل گئی تھی۔
”بھابی! پری کیوں نہیں آئی آپ لوگوں کے ساتھ؟“ اس کے دل میں مچلنے والا سوال اس کی مما کے لبوں سے ادا ہو گیا تھا اور جواب سننے کیلئے اس کا وجود سماعت بن گیا تھا۔
”میں نے تو بے حد اصرار کیا تھا پری سے لیکن وہ ہمارے یہاں آنے سے پہلے اپنی نانو کے گھر چلی گئی۔
“ صباحت نے اماں جان کی موجودگی کی وجہ سے نرمی سے جواب دیا۔
”کل چلی جاتی وہ اپنی نانی کے ہاں میرا دل بہت بے تاب تھا پری سے ملنے کیلئے، مجھے وہ بچی بے حد پسند ہے۔“ شیری کی نگاہیں بے ساختہ ماں کی طرف اٹھی تھیں اس لمحے کو اپنی ماں پر بہت پیار آیا تھا، جو ہو بہو اس کے دل کی بے کل دھڑکنوں کی ترجمانی بالکل درست انداز میں کر رہی تھیں۔
”شیری بیٹا! آپ وہاں رک کیوں گئے، انکل سے نہیں ملیں گے؟“ عابدی فیاض کو لے کر اس کے قریب چلے آئے تھے۔
”آپ کیسے ہیں انکل؟“ وہ ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے گویا ہوا۔
”میں ٹھیک ہوں اور آپ؟“ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”ٹھیک ہوں۔“ وہ ان کے ساتھ ہی اندر لیونگ روم میں آ گیا تھا، جہاں تمام لوگ موجود تھے وہ صباحت کو سلام کرتا ہوا سامنے صوفے پر بڑے طمطراق سے براجمان دادی جان کی طرف بڑھا، جن کی بارعب پر وقار شخصیت میں کچھ ایسا دبدبہ تھا کہ اس جیسا بے پروا و بد دماغ شخص بڑے ادب بھرے لہجے میں ان سے مخاطب ہوا تھا۔
”السلام علیکم گرینڈ مدر! کیسی ہیں آپ؟“
”وعلیکم السلام! سدا خوش رہو، اچھا تو تم ہو عابدی کے بیٹے جو امریکہ سے پڑھ کر آئے ہو۔“ دادی نے بغور اس کی طرف دیکھتے ہوئے نرم انداز میں پوچھا، ساتھ ہی اس کے سر پر ہاتھ بھی پھیرا تھا۔
”جی ہاں، اماں جان! یہی شیری ہیں شہریار!“ مسز عابدی شال لپیٹے ان کے قریب آکر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”مما آپ کی بے حد تعریف کرتی ہیں اور آپ سے ملنے کے بعد مجھے فیل ہوا، واقعی آپ بہت اچھی ہیں گرینڈ مدر!“ وہ ان کے قریب بیٹھ گیا اس کے لہجے میں ستائش تھی۔
”تعریفیں تو سب اللہ کیلئے ہوتی ہیں بیٹا! میں تو اس کی گناہ گار بندی ہوں، تمہاری مما کو میں اس لئے اچھی لگتی ہوں کہ یہ خود بہت اچھی ہیں اور اچھے لوگوں کو دوسروں میں بھی اچھائیاں دکھائی دیتی ہیں اور تم مجھے انگریزی میں مت پکارو، سیدھے سادے طریقے سے دادی جان کہو جیسے میرے سب بچے مجھے دادی جان کہتے ہیں۔
“ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب بٹھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ صباحت اور عائزہ، عادلہ دادی کے اس بے تکلف انداز پر گھبرا کر شیری اور عابدی کی طرف دیکھنے لگی تھیں لیکن ان کے چہروں پر ایسی کوئی ناگواری نہ ابھری تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ انہوں نے اماں کے اس انداز کو مائنڈ کیا ہو۔
”سوری دادی جان! اب میں آپ کو دادی جان ہی کہا کروں گا۔
“ شیری نے جھجکتے ہوئے کہا تھا۔ ملازمہ وہاں مشروبات کے گلاس لے کر آئی اور سب میں سرو کرنے لگی تھی۔ عائزہ اور عادلہ شمع اور شازمہ کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھیں۔
”شمع آپی! مائنڈ مت کیجئے گا، ہماری دادی جان کی عادت ایسی ہی ہے جو چاہتی ہیں بول دیتی ہیں۔“ عائزہ نے کہا۔
”اسی وجہ سے ہم لوگ دادی جان کو پارٹیز میں لے کر نہیں جاتے۔
یہ اسی طرح سے سب کی انسلٹ کرتی ہیں، یہاں لانے کیلئے آنٹی نے بے حد اصرار کیا تھا، اس لئے لانا پڑا اور نہ…“
”ڈونٹ وری عادلہ ڈیئر! بزرگ تو گھر کی رونق ہوتے ہیں، دادی جان کی کوئی بھی بات مائنڈ کرنے والی نہیں ہے۔“ شازمہ نے خلوص بھرے لہجے میں کہا تھا۔
”بلکہ ہمیں تو خوشی ہے کوئی ایسا بھی ہے جو شیری کے کان کھینچ سکتا ہے وگرنہ… یہ مما ڈیڈی کے بھی قابو میں آنے والی ہستی نہیں ہے اب دیکھو کہ کس طرح سے گردن جھکائے کسی اچھے بچے کی مانند بیٹھا ہے۔
“ شمع نے سامنے سعادت مندی سے بیٹھے شیری کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ وہ سب باتوں میں مصروف تھے۔
فیاض صاحب اور عابدی کا من روم میں سنوکر کھیلنے میں مگن تھے، عادلہ کی نگاہیں بار بار شیری کی جانب اٹھ رہی تھیں جو یہاں ہوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر غیر حاضر تھا اور ایسا کیوں تھا وہ وجہ جان چکی تھی کہ کار سے نکلتے ہوئے اس کی نگاہوں کے شوق کو دھواں دھواں ہوتے ہوئے اس نے دیکھا تھا۔
###
عشرت جہاں نے پری کو سینے سے لگا لیا اور خاصی دیر اسے سینے سے لپٹائے رکھا، ان کے انداز میں بڑی مبحت و شفقت تھی۔
”میری جان! آپ نے تو اپنی صورت سے ترسا دیا تھا، دن گن گن کر گزارے ہیں میں نے آپ کے انتظار میں۔ مثنیٰ الگ آپ کو یاد کرتی رہتی ہے۔“ وہ آکر لاؤنج میں بیٹھ گئی تھیں۔
”طغرل بھائی اور مذنہ آنٹی کی وجہ سے ٹائم گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا نانو! حالانکہ دادی جان نے تو مجھ سے بار بار کہا میں آپ کے پاس آتی جاتی رہوں، پر مجھے ہی اچھا نہیں لگا کہ میں ان کو چھوڑ کر آ جاؤں، ملازمائیں گھر اچھی طرح نہیں سنبھالتی ہیں۔
“ وہ مسکراتے ہوئے ذمہ دارانہ لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”آپ ہی کیوں کیئر ٹیکر بنی ہوئی ہیں وہاں کی؟ یہ سب ذمہ داریاں فیاض کی بیوی اور بیٹیوں کی ہیں، وہ ڈیزرو کرتی ہیں۔“
”وہ تو پوری کوشش کرتی ہیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی مگر دادی جان کو آپ جانتی ہیں، بہت نفاست پسند طبیعت ہے ان کی، ان کو اپنی مرضی و پسند کے مطابق کام نہیں ملتا وہ خود ہی کام کرنے کی سعی کرتی ہیں اور میں ایسا نہیں چاہتی ہوں۔
”اچھی بات ہے یہ آپ اپنی اسٹیپ مدر اور سسٹرز کی بڑی خوبصورتی سے سائیڈ لے رہی ہیں، یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی کی مثال ہے اور وہ لوگ کتنا ظرف رکھتے ہیں اس کا اندازہ مجھے ہے۔“ ان کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی تھی پری بھی نانو کی ذہنی فطرت سے واقف تھی اس کے کچھ نہ بتانے کے باوجود بھی وہ بہت کچھ جان جاتی تھیں، اس لئے وہ وہاں کی باتیں بہت کم اور بے حد محتاط انداز میں کرتی تھی۔
”آج ڈنر میں کیا ہے؟“ اس نے موضوع چینج کیا۔
”آج ہم ڈنر کرنے کسی بہترین سے ریسٹورنٹ جائیں گے۔“
”واؤ، ٹھیک ہے بہت عرصہ ہو گیا ہے باہر کھانا کھائے ہوئے، میں واپسی میں اپنی پسند کی آئس کریم بھی کھاؤں گی، ممی آئیں گی ہمارے ساتھ؟“ ایک عرصے بعد اس کا موڈ بدلا تھا۔
”مثنیٰ آج کل بہت پریشان ہے بلکہ صفدر جمال بھی۔“
”سب ٹھیک تو ہے نا؟ ممی اور انکل کیوں پریشان ہیں؟“ نانو کی افسردہ آواز نے اسے پریشان کر دیا تھا۔
”سعود نے امریکہ میں کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کر لی تھی، اس شادی کیلئے مثنیٰ مان نہیں رہی تھی، صفدر تو پھر بھی رضا مند تھا مگر مثنیٰ کی ”نہ“ نے سعود کو اتنا فرسٹریٹ کیا کہ اس نے خود کشی کرنے کی کوشش کی وہ تو بھلا ہو اس کے فرینڈز کا جنہوں نے بروقت اس کو ہسپتال پہنچایا اور یہاں صفدر کو خبر دی اور صفدر نے مثنیٰ سے یہ خبر چھپائی اور امریکہ چلا گیا، وہاں سعود کی حالت بہتر ہوئی تو اس نے پھر خود کشی کرنے کی کوشش کی، بروقت طبی امداد سے اس کو اللہ نے دوسری زندگی دی لیکن وہ اس ہندو لڑکی پوجا کی محبت میں اتنا آگے جا چکا تھا کہ اس نے صفدر سے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا، اس کی شادی پوجا سے ہو گی یا وہ موت کو گلے لگا کر رہے گا۔
“ وہ دم بخود ان کی گفتگو سن رہی تھی۔
”صفدر کی سمجھ میں بات آ گئی اور اس نے سر پھرے لڑکے کی ہٹ دھرمی قبول کر لی اور خاموشی سے ان کی شادی کے بعد وہ پاکستان آ گیا۔“
”ممی مان گئی تھیں؟“
”نہیں! جب اس کو معلوم ہوا تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور صفدر کو چھوڑ کر میرے پاس آ گئی۔“
”صفدر انکل کو چھوڑ کر؟“ وہ ان کی بات اچک کر گویا ہوئی۔
”نانو! ممی کیلئے سب کو چھوڑ دینا اتنا ایزی کیوں ہے؟ پہلے انہوں نے پاپا کو چھوڑا، پھر مجھے اور اب صفدر انکل کو بھی چھوڑنا ان کیلئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔“ اس کے طنزیہ لہجے میں دکھ کی سلگتی ہوئی آنچ بھی تھی۔ جس کو محسوس کرکے چند لمحے عشرت جہاں کچھ کہہ نہ سکیں پھر خود کو سنبھالتی ہوئی اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئیں۔
”ایسی بدگمانی اچھی نہیں ہوتی پری۔
”یہ بدگمانی نہیں ہے نانو جان! یہ وہ حقیقت ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں، آپ اس درد کو محسوس نہیں کر سکتیں جو درد میں اس وقت محسوس کرتی ہوں جب صباحت مما عادلہ اور عائزہ کی بڑی سے بڑی غلطیوں کو نظر انداز کرتی ہیں اور میری معمولی سی کوتاہی کو وہ بہت بڑا ایشو بنا ڈالتی ہیں اور مجھے ٹیز کرتی ہیں۔“ اس کی خوبصورت آنکھوں میں گھٹا سی امڈنے لگی تھی۔
”میں واقف ہوں اور محسوس کرتی ہوں آپ کے دکھ کو، آپ کی ان تمام تکلیفوں کو جو آپ مثنیٰ کی غیر موجودگی میں سہتی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سب کی ذمہ دار تنہا مثنیٰ ہے اس نے ہر ممکن کوشش کی تھی، فیاض کے ساتھ بندھے تعلق کو نبھانے کی آپ کو خود سے جدا نہ کرنے کی۔“
”اگر ممی ذمہ دار نہیں ہیں تو پھر کون ہے نانو! یہاں آپ پاپا کو مجرم کہتی ہیں وہاں سب ممی کو قصور وار گردانتے ہیں۔
مجھے معلوم تو ہو اصل میں کس نے کس کو چھوڑا؟ ابتداء کس کی جانب سے ہوئی اور انتہا کس نے کی آخر؟“ اچانک ہی اس کی دکھتی رگ پھڑپھڑا اٹھی تھی۔
”اتنے عرصے بعد آئی ہو بیٹا! اور کیسی باتیں شروع کر دی ہیں، یہ وہ داغ ہیں جو دل کو لگ چکے ہیں اور گزرتے وقت نے ان کو خراب کر دیا ہے، صاف ہونے کے قابل نہیں رہے ہیں لیکن بے فکر رہیں آپ، میں آپ کو سب بتاؤں گی“

   1
0 Comments